تعلیم تو ہے مگر تربیت نہیں

تعلیم تو ہے مگر تربیت نہیں                                                            

در حقیقت ہر لفظ اپنی اصلیت میں علم وحکمت کا ایک گھر ہواکرتا ہےظاہرً بھلے تعلیم ایک عام سا لفظ نظر آتا ہے مگر جوں ہی ہم غوروفکر کی نظروں سے اس لفظ پر غور کرتے ہیں تو اس لفظ میں اتنی وسعت پیدا ہوجاتی ہے کہ دوسرے چھوٹے چھوٹے موضوعات اس لفظ میں غریق ہوجاتے ہیں۔

تعلیم  تو ہے مگر تربیت نہیں

تعلیم جوکہ علم وحکمت کے مختلف زاویوں کا مجموعی نام ہے اور اس زاویے سے دیکھا جائے تو ہمارا اصل موضوع علم ہوا چاہتاہے علم کے کئ اقسام اور درجات ہواکرتے ہیں سولہذا وقت کی قدروقیمت اور معاشرے کی پسماندگی کو مد نظر رکھتےہوئےہم سب سے اعلیٰ علم کے حوالے سے کچھ حقائق کو سامعین کی نظر کرنے کی حقیر سی کوشش سر انجام دینا چاہیے گے ۔

یہاں ایک پیچیدہ سوال کا بھی ظہور ہوتا ہے کہ اعلیٰ علم سے کیا مراد ہے؟

دراصل اعلیٰ علم سے مراد حقیقت کا علم ہے کہ جہاں  ایک ہستی اعلیٰ علم کے حصول کے بعد وہ بن جاتاہے جو وہ اپنی اصلیت میں تھا اور جب کوئی ذی روح ہستی وہ بن جائے جو وہ تھا تو اس سے بڑھ کر مسرت اور شادمانی کی بات اورکیا ہوسکتی ہے۔

رہی بات تربیت کی تو ہمیں ہوشیاری کے ساتھ انسان کے ہر پہلو کی تربیت کے حوالے سے دیکھنا چاہیے کیونکہ انسان کئی پہلوؤں کے مجموعے کا نام ہے مثلاً لفظ صحت کو ہم نے محض جسمانی صحت سے ہی منسوب کیا ہوا ہےجبکہ  عقلی اور روحانی صحت کا انسانی زندگی میں  اہم کردار ہے اور اس کی وجہ یہ کہ جسم سے روح کا مرتبہ بلند  اور روح سے عقل کا مرتبہ بلند ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ دین میں عقل کے استعمال پر زیادہ زور دیا جاتاہے اور اگرچہ عقل کے کرشموں کی بات کریں تو سب سے عمدہ مثال ٹیکنالوجی کی صورت میں ہمارے سامنے موجودہےاوروہ فرشتے جنھوں نے حضرت آدم علیہ السلام اور ابن آدم کو سجدے دراصل عقل ہی کی بنیاد پر ہی کئے تھے۔

یہاں یہ بھی سوال ہوسکتاہے کہ عقل اور علم اپنی اصلیت میں کیاہے؟

چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کرنے کا نام علم ہے اور چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کرنے والی قوت کا نام عقل ہے۔

ہم دراصل بات کررہے تھے تعلیم اور تربیت کے حوالے سےکہ موجودہ معاشرے میں اس قدروسیع تعلیم ہونے کے  باوجود بھی آج کاانسان مہذب کیوں نہیں ہے کیوں ہر طرف سے بےادبی اوربدزبانی کی شکایات موصول ہورہی ہےآخراس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بنیادی وجوہات میں سے سب  سے بڑی وجہ والدین کی لاپرواہی اور ہمارا تعلیمی نظام ہیں۔کیونکہ اسی نظام سے ہی معاشرے میں مختلف شخصیات کا ظہور ہوتا ہے اسی نظام سے ہی معاشرے میں ڈاکٹرز ،مجنون اور صوفی پیدا ہوتے ہیں۔

 مثلاً ایک طالبعلم کلاس میں بیھٹا اردو مضمون کے غزلیات سے اس قدر متاثر ہوتاہے کہ اس کو پتہ تک نہیں ہوتا ہےکہ جی ہی جی میں وہ کب کا عاشق بن چکاہوتاہے اور اس کی عاشقی کی آگ  کو اردو کے پروفیسر اشعاروں سےمزید بھڑکھنے کی کوشش کرتاہے

ماناکہ تیری دیدکےقابل نہیں ہوں میں  

  تومیراشوق دیکھ میرا انتظار دیکھ

تم میری روح کی آواز ہو       خاص نہیں تم بہت خاص ہو

داستان ختم ہونے والی ہے   تم میری آخری محبت ہو

اس قدردلنشین اشعارکو سُن کر عاشق جی ہی جی میں جل رہا ہوتاہےبجائے عاشق کے گائل دل کو قرار آنے کے الٹااضطراب کا شکارہوجاتاہےاور اس کے برعکس دوسری طرف ایک طالبعلم آیات قرانی سے اس قدر متاثر ہوتاہے کہ وبھی جی ہی جی میں کب کا صوفی بن چکا ہوتاہے۔اور ایک تیسرا طالبعلم کشمکش میں ہوتا ہے کہ کس قسم کی محبت کی جائے کیونکہ دونوں کیفیات یکساں طور سے اُس کے دل کو شادمانی بخش رہی ہوتے ہیں۔یہ کتنا عجیب وغریب بھید ہے کہ نظارے لامحدود ہے مگر نظر محدود ہے اسی طرح محبتے دو ہے لیکن قلب کیوں ایک عطا ہواہے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے "اور الله تعالی نے کسی کے پہلو میں دو دھڑ نہیں بنائے"

مسلہ یہ ہے کہ یہ تینوں کیفیات فلحال ناقص ہے اور اسی وجہ سے ہی معاشرے کے لوگ ان کیفیات کو نہ صرف قبول نہیں کرتے بلکہ شدید مذمت بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے علم ،تربیت اور ادب میں بیگاڑ پیداہوتی ہے اور یہی بیگاڑ شکایت کی صورت میں اجکل ہمیں موصول ہو رہی ہیں اور اس بیگاڑ کی اصل وجہ والدین اور ساتذہ کے اندر لیڈرشپ اور اپنے مضمون سے محبت کا نہ ہونا شامل ہے۔

ہمارا سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہر صاحب علم پڑھا سکتاہے وہ محض معلومات دے سکتاہے جذبات اور احساسات کی دنیا کو نہیں سنوار سکتا ہے جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے کیونکہ کسی بھی مضمون کا حقیقی علم احسن طریقے صرف وہی دے سکتاہے جو سب سے پہلے اپنے مضمون پر دسترس رکھتاہو،مضمون سے اپڈیٹ اور سب سے بڑھ اُسے اپنے مضمون سے محبت ہو ۔مگر افسوس ایسا استاد لاکھوں میں کوئی ایک ہوا کرتاہےورنہ ہر گھر سے ایک نیوٹن اور ایک رومی ضرورنکلتااور جیساکہ رومی فرماتے ہیں کہ 

مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم

تاغلام شمس تبریزی نہ شُد

استاتذہ کی زیادہ تر کوشش ہوتی ہے کہ بچے کو زیادہ سے زیادہ چیزیں یاد رہے یعنی سارا دھیان حافظہ کو بہتربنانے کے لیے کیا جاتاہے ایک ٹیب ریکارڈر کی طرح اور اگرچہ حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ بچہ اُس حافظہ کا کیا کریں گا جس میں وہ خود کے لئے ہی انجان ہو۔

اپنےنے سے بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آؤ صرف یہی کہنا کافی نہیں ہوتاہے

  یہ صرف معلومات ہوگئی اور اگر یہی کہنا کافی  ہے تو بندہ اس حقیقت کو جان کر اپنے سے بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے کیوں پیش نہیں آتا؟

وہ چیزوں کو جان کر انجان بنے کی کوشش اور حقیقت سے کیوں بھاگ رہاہے؟ 

پہلی بات تویہ ہے کہ اس بچے نے  اچھی باتوِں کو ذہن نشین کرکے صرف حافظہ کے سپرد کردیاہے اور جب عملی زندگی میں اِن باتوں کی ضرورت پڑتی ہے تو محض وقت کی مناسبت سے وہ اداکاری کےسوااور کچھ نہیں کرہاہوتاہے۔کیونکہ ابھی بھی اُس کو بہت سی حقیقتوں سے اشنا جونہیں کروایاہے۔

 دراصل تعلیم تو دی گئی ہے مگر تعلیم کے جوہر کو تربیت کی صورت میں نہیں دی گئی ہے اسی وجہ سے علم میں بیگاڑ پیداہوئی جو شیکایات کی صورت میں آپکو موصول ہوگئی۔

تربیت یہ ہے کہ علم کو اپنی اصلیت ،حقیقت  اور عملیت کے ساتھ طلبہ میں اس طرح منتقل کیا جائے کہ جس طرح ایک اندھرے کمرے کے بٹن کو ذرا سادبانے سے سارا کمراہ جو کہ کئی دہائوں سے ظلمت کا شکار ہوا تھا اب وہ بلب آفتاب کی طرح چمکتا دمکتا نہ صرف سارے کمرے کوبلکہ پورے گھرکومنورکردے۔

تربیت اپنے آپ کو علم وحکمت سے آراستہ وپیراستہ کرنے کا نام نہیں یہ تو ٹیب ریکارڈر کا کام ہے جو تم سے کئی لاکھ درجہ بہتراور کئی لاکھ تیز تر معلومات ریکارڈ کرسکتاہے۔روز محشر یہ دیکھا نہیں جاتاکہ کس نے سب سے زیادہ علم حصول کیا ہے اگر یہ دیکھا گیا تو مبارک اُن بے جان ایشیایعنی موبائل فونز،دیگر ڈیواسیس اور نیٹ کو کہ جس میں بے تحاشاعلم وحکمت کے موتی بکھرے پڑے ہوئے ہیں۔اور اگر ایسا ہوا تو جنت میں انسان کم اور موبائل فونز زیادہ ہونگے ۔

درحقیقت سارا کا سارا قصہ عملیت کاہےاگرچہ آپ کے پاس علم وحکمت کے موتی ہے تو ضرور اُس علم کو علمیت کے لباس سے زیب تن کریں کیونکہ وقت کی سوئی چلاکی سے دن بہ دن آپکو فرسودہ بناتی جارہی ہے۔ اور اُس خزانے کا کیا ہی فاہدہ جو خود تمہارے حقیقی معنوں میں کام آئی نہ اور نہ ہی دوسروں کے کام یہ تو بخیل والی بات ہوگئ جس کی خدا تبارکہ وتعالی سخت مذمت کی ہیں۔ اگر اپکا علم آپکو عملیت پر نہیں ابھرتا ہے تو ضرور علم کے حصول میں آپ سے کہی نہ کہی کوتاہی ہوئی ہے لہذاوقت کو غنیمت سمجھ کر بہتر یہی ہے ایک نئے سفر کاآغاز کیا جائے ۔

در حقیقت ہر لفظ اپنی اصلیت میں علم وحکمت کا ایک گھر ہواکرتا ہےظاہرً بھلے تعلیم ایک عام سا لفظ نظر آتا ہے مگر جوں ہی ہم غوروفکر کی نظروں سے اس لفظ پر غور کرتے ہیں تو اس لفظ میں اتنی وسعت پیدا ہوجاتی ہے کہ دوسرے چھوٹے چھوٹے موضوعات اس لفظ میں غریق ہوجاتے ہیں۔

تعلیم جوکہ علم وحکمت کے مختلف زاویوں کا مجموعی نام ہے اور اس زاویے سے دیکھا جائے تو ہمارا اصل موضوع علم ہوا چاہتاہے علم کے کئ اقسام اور درجات ہواکرتے ہیں سولہذا وقت کی قدروقیمت اور معاشرے کی پسماندگی کو مد نظر رکھتےہوئےہم سب سے اعلیٰ علم کے حوالے سے کچھ حقائق کو سامعین کی نظر کرنے کی حقیر سی کوشش سر انجام دینا چاہیے گے ۔

یہاں ایک پیچیدہ سوال کا بھی ظہور ہوتا ہے کہ اعلیٰ علم سے کیا مراد ہے؟

دراصل اعلیٰ علم سے مراد حقیقت کا علم ہے کہ جہاں  ایک ہستی اعلیٰ علم کے حصول کے بعد وہ بن جاتاہے جو وہ اپنی اصلیت میں تھا اور جب کوئی ذی روح ہستی وہ بن جائے جو وہ تھا تو اس سے بڑھ کر مسرت اور شادمانی کی بات اورکیا ہوسکتی ہے۔

رہی بات تربیت کی تو ہمیں ہوشیاری کے ساتھ انسان کے ہر پہلو کی تربیت کے حوالے سے دیکھنا چاہیے کیونکہ انسان کئی پہلوؤں کے مجموعے کا نام ہے مثلاً لفظ صحت کو ہم نے محض جسمانی صحت سے ہی منسوب کیا ہوا ہےجبکہ  عقلی اور روحانی صحت کا انسانی زندگی میں  اہم کردار ہے اور اس کی وجہ یہ کہ جسم سے روح کا مرتبہ بلند  اور روح سے عقل کا مرتبہ بلند ہوتاہے۔یہی وجہ ہے کہ دین میں عقل کے استعمال پر زیادہ زور دیا جاتاہے اور اگرچہ عقل کے کرشموں کی بات کریں تو سب سے عمدہ مثال ٹیکنالوجی کی صورت میں ہمارے سامنے موجودہےاوروہ فرشتے جنھوں نے حضرت آدم علیہ السلام اور ابن آدم کو سجدے دراصل عقل ہی کی بنیاد پر ہی کئے تھے۔

یہاں یہ بھی سوال ہوسکتاہے کہ عقل اور علم اپنی اصلیت میں کیاہے؟

چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کرنے کا نام علم ہے اور چیزوں کو ان کی حقیقی حالت کے مطابق معلوم کرنے والی قوت کا نام عقل ہے۔

ہم دراصل بات کررہے تھے تعلیم اور تربیت کے حوالے سےکہ موجودہ معاشرے میں اس قدروسیع تعلیم ہونے کے  باوجود بھی آج کاانسان مہذب کیوں نہیں ہے کیوں ہر طرف سے بےادبی اوربدزبانی کی شکایات موصول ہورہی ہےآخراس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بنیادی وجوہات میں سے سب  سے بڑی وجہ والدین کی لاپرواہی اور ہمارا تعلیمی نظام ہیں۔کیونکہ اسی نظام سے ہی معاشرے میں مختلف شخصیات کا ظہور ہوتا ہے اسی نظام سے ہی معاشرے میں ڈاکٹرز ،مجنون اور صوفی پیدا ہوتے ہیں۔

 مثلاً ایک طالبعلم کلاس میں بیھٹا اردو مضمون کے غزلیات سے اس قدر متاثر ہوتاہے کہ اس کو پتہ تک نہیں ہوتا ہےکہ جی ہی جی میں وہ کب کا عاشق بن چکاہوتاہے اور اس کی عاشقی کی آگ  کو اردو کے پروفیسر اشعاروں سےمزید بھڑکھنے کی کوشش کرتاہے

ماناکہ تیری دیدکےقابل نہیں ہوں میں  

  تومیراشوق دیکھ میرا انتظار دیکھ

تم میری روح کی آواز ہو       خاص نہیں تم بہت خاص ہو

داستان ختم ہونے والی ہے   تم میری آخری محبت ہو

اس قدردلنشین اشعارکو سُن کر عاشق جی ہی جی میں جل رہا ہوتاہےبجائے عاشق کے گائل دل کو قرار آنے کے الٹااضطراب کا شکارہوجاتاہےاور اس کے برعکس دوسری طرف ایک طالبعلم آیات قرانی سے اس قدر متاثر ہوتاہے کہ وبھی جی ہی جی میں کب کا صوفی بن چکا ہوتاہے۔اور ایک تیسرا طالبعلم کشمکش میں ہوتا ہے کہ کس قسم کی محبت کی جائے کیونکہ دونوں کیفیات یکساں طور سے اُس کے دل کو شادمانی بخش رہی ہوتے ہیں۔یہ کتنا عجیب وغریب بھید ہے کہ نظارے لامحدود ہے مگر نظر محدود ہے اسی طرح محبتے دو ہے لیکن قلب کیوں ایک عطا ہواہے جیساکہ ارشاد باری تعالی ہے "اور الله تعالی نے کسی کے پہلو میں دو دھڑ نہیں بنائے"

مسلہ یہ ہے کہ یہ تینوں کیفیات فلحال ناقص ہے اور اسی وجہ سے ہی معاشرے کے لوگ ان کیفیات کو نہ صرف قبول نہیں کرتے بلکہ شدید مذمت بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے علم ،تربیت اور ادب میں بیگاڑ پیداہوتی ہے اور یہی بیگاڑ شکایت کی صورت میں اجکل ہمیں موصول ہو رہی ہیں اور اس بیگاڑ کی اصل وجہ والدین اور ساتذہ کے اندر لیڈرشپ اور اپنے مضمون سے محبت کا نہ ہونا شامل ہے۔

ہمارا سب سے بڑا مسلہ یہ ہے کہ ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہر صاحب علم پڑھا سکتاہے وہ محض معلومات دے سکتاہے جذبات اور احساسات کی دنیا کو نہیں سنوار سکتا ہے جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے کیونکہ کسی بھی مضمون کا حقیقی علم احسن طریقے صرف وہی دے سکتاہے جو سب سے پہلے اپنے مضمون پر دسترس رکھتاہو،مضمون سے اپڈیٹ اور سب سے بڑھ اُسے اپنے مضمون سے محبت ہو ۔مگر افسوس ایسا استاد لاکھوں میں کوئی ایک ہوا کرتاہےورنہ ہر گھر سے ایک نیوٹن اور ایک رومی ضرورنکلتااور جیساکہ رومی فرماتے ہیں کہ 

مولوی ہرگز نہ شُد مولائے روم

تاغلام شمس تبریزی نہ شُد

استاتذہ کی زیادہ تر کوشش ہوتی ہے کہ بچے کو زیادہ سے زیادہ چیزیں یاد رہے یعنی سارا دھیان حافظہ کو بہتربنانے کے لیے کیا جاتاہے ایک ٹیب ریکارڈر کی طرح اور اگرچہ حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ بچہ اُس حافظہ کا کیا کریں گا جس میں وہ خود کے لئے ہی انجان ہو۔

اپنےنے سے بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آؤ صرف یہی کہنا کافی نہیں ہوتاہے

  یہ صرف معلومات ہوگئی اور اگر یہی کہنا کافی  ہے تو بندہ اس حقیقت کو جان کر اپنے سے بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے کیوں پیش نہیں آتا؟

وہ چیزوں کو جان کر انجان بنے کی کوشش اور حقیقت سے کیوں بھاگ رہاہے؟ 

پہلی بات تویہ ہے کہ اس بچے نے  اچھی باتوِں کو ذہن نشین کرکے صرف حافظہ کے سپرد کردیاہے اور جب عملی زندگی میں اِن باتوں کی ضرورت پڑتی ہے تو محض وقت کی مناسبت سے وہ اداکاری کےسوااور کچھ نہیں کرہاہوتاہے۔کیونکہ ابھی بھی اُس کو بہت سی حقیقتوں سے اشنا جونہیں کروایاہے۔

 دراصل تعلیم تو دی گئی ہے مگر تعلیم کے جوہر کو تربیت کی صورت میں نہیں دی گئی ہے اسی وجہ سے علم میں بیگاڑ پیداہوئی جو شیکایات کی صورت میں آپکو موصول ہوگئی۔

تربیت یہ ہے کہ علم کو اپنی اصلیت ،حقیقت  اور عملیت کے ساتھ طلبہ میں اس طرح منتقل کیا جائے کہ جس طرح ایک اندھرے کمرے کے بٹن کو ذرا سادبانے سے سارا کمراہ جو کہ کئی دہائوں سے ظلمت کا شکار ہوا تھا اب وہ بلب آفتاب کی طرح چمکتا دمکتا نہ صرف سارے کمرے کوبلکہ پورے گھرکومنورکردے۔

تربیت اپنے آپ کو علم وحکمت سے آراستہ وپیراستہ کرنے کا نام نہیں یہ تو ٹیب ریکارڈر کا کام ہے جو تم سے کئی لاکھ درجہ بہتراور کئی لاکھ تیز تر معلومات ریکارڈ کرسکتاہے۔روز محشر یہ دیکھا نہیں جاتاکہ کس نے سب سے زیادہ علم حصول کیا ہے اگر یہ دیکھا گیا تو مبارک اُن بے جان ایشیایعنی موبائل فونز،دیگر ڈیواسیس اور نیٹ کو کہ جس میں بے تحاشاعلم وحکمت کے موتی بکھرے پڑے ہوئے ہیں۔اور اگر ایسا ہوا تو جنت میں انسان کم اور موبائل فونز زیادہ ہونگے ۔

درحقیقت سارا کا سارا قصہ عملیت کاہےاگرچہ آپ کے پاس علم وحکمت کے موتی ہے تو ضرور اُس علم کو علمیت کے لباس سے زیب تن کریں کیونکہ وقت کی سوئی چلاکی سے دن بہ دن آپکو فرسودہ بناتی جارہی ہے۔ اور اُس خزانے کا کیا ہی فاہدہ جو خود تمہارے حقیقی معنوں میں کام آئی نہ اور نہ ہی دوسروں کے کام یہ تو بخیل والی بات ہوگئ جس کی خدا تبارکہ وتعالی سخت مذمت کی ہیں۔ اگر اپکا علم آپکو عملیت پر نہیں ابھرتا ہے تو ضرور علم کے حصول میں آپ سے کہی نہ کہی کوتاہی ہوئی ہے لہذاوقت کو غنیمت سمجھ کر بہتر یہی ہے ایک نئے سفر کاآغاز کیا جائے ۔


شکریہ


ازقلم : عادل بیگ

Don't Miss;Sustainable HRM Practices And Their Contribution To Organizational Excellence

Post a Comment

0 Comments